بالآخر راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوئیں اور پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم بھارت کی سرزمین پر جا خیمہ زن ہوئی۔ ٹیم کے وہاں پہنچتے ہی فیس بک و دیگر سوشل میڈیا پر ڈسپلے پکچرز میں پاکستان کا سبز رنگ جھلکنے لگا۔ سبز رنگ امید کا رنگ بھی ہے۔ ’’اسٹیٹس‘‘ خواہ جو بھی کہیں، دلوں میں امید کا اک چراغ اب بھی روشن ہے۔ ٹمٹماتا ہی سہی، پر ہے ضرور۔
یہاں یر یہ اہم سوال سینہ تانے سامنے کھڑا نظر آتا ہے کہ ٹیم ، بالخصوص بیٹنگ لائن، کی حالیہ کارکردگی کی روشنی میں توقعات کی کیا بنیاد ہے جبکہ اس ٹورنامنٹ اور پھر پاکستان کے پول میں وہ ٹیمیں مجود ہیں جن کے لئے 20 اوورز میں 200 رنز بنا لینا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ میری رائے میں ان حالات میں بھی پاکستان کے لیے ایک مناسب امکان موجود ہے، لیکن اس کا گہرا تعلق ان کے سٹیٹ آف مائنڈ سے ہوگا۔ سٹیٹ آف مائنڈ یا نفسیاتی کیفیت وہ شے ہے ،جو فتح و شکست میں توقع اور دستیاب وسائل سے بڑھ کر فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے۔
درست ذہنی کیفیت سے بظاہر کمزور نظر آنے والا فریق بھی حیران کن نتائج دینے کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے۔ آسانی کے لئے ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ بالعموم دو نفسیاتی کیفیات فعال رہتی ہیں۔۔۔ فاتح کی ، جو کہ طاقت یا قوت کے واضح مظاہر کے پس منظر سے نمو پاتی ہیں اور دوسری شکست خوردگی کی۔۔۔ جو مندرجہ بالا خواص کی عدم موجودگی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ پاکستانی ٹیم اول الذکر کا دعوی کر نہیں سکتی کہ یہ محض خود فریبی ہو گی اور ہلکی سی ٹھیس اس ’’کاغذی‘‘ اعتماد کا بھرم کھول کر رکھ دے گی۔
دوسری جانب شکست خوردگی کی کیفیت تو معاملہ کو مقابلے کی سطح تک بھی نہیں لے کر جائے گی اور شروع ہونے سے پہلے ہی سب ٹھپ ہو جائے گا اور پھر ٹیم بھی پاکستانی ہو۔۔۔ آپس میں بھڑنے کو ہر لمحہ تیار۔۔۔ ہو حلقہ یاران تو فولاد ہے مومن والی بات۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان ایک اور نفسیاتی کیفیت بھی ہوتی ہے اور اس کیفیت کا مظاہرہ ہم نے ٹی ٹونٹی فارمیٹ میں بہت تواتر سے کیا ہے اور وہ ہے ’’اپ سیٹ‘‘ کر دینے کی نفسیات۔ جہان تگ ودو میں یہ حقیقتاً بڑی شے اور اس سے حقیقتاً ’’تاج سر دارا‘‘ بھی حاصل ہو سکتا ہے۔
اس ذہنی کیفیت کے اثرات انتہائی مثبت ہوتے ہیں اور پھر یہی بات نتائج کی صورت بھی سامنے آتی ہے۔مثلاً : 1۔ آپ اپنی طاقت اور کمزوری کا زیادہ معروضی جائزہ لیتے ہیں اور اسی حوالے سے منصوبہ ترتیب دیتے ہیں۔ 2۔ نتائج کے بجائے پہلی ترجیح بھرپور مقابلہ ہو جاتا ہے۔ اس سے خوامخواہ کا پرفارمنس پریشر نہیں بنتا۔ 3۔ فیلڈنگ ، باؤلنگ اور بیٹنگ سے متعلق چھوٹے چھوٹے، لیکن مسلسل اہداف طے کر لئے جاتے ہیں، جن کی تکمیل سب پر بحیثیت ایک ٹیم اور بذریعہ ٹیم ورک لازم ہوتی ہے۔
4۔ ناموافق صورتحال کے ہنگام مایوسی کی بجائے آپ کے اندر کا موقع شناس بیدار رہتا ہے جس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مخالف کو زیر کرنے کا کوئی نہ کوئی موقع بنایا جائے اور جب وہ حاصل ہو جائے تو لاحاصل نہ جانے پائے۔ اس طرح کی اپروچ گیم چینجر کا رول ادا کرتی ہے اور اصل استعداد کے مقابلہ میں کہیں بہتر نتائج سامنے لا سکتی ہے۔ ٹیم کی آسانی کے لئے انہیں صرف ایک نعرہ دیا جائے کہ ہم نے مخالف کی ’’جڑوں‘‘ میں بیٹھنا ہے ، بس۔ چونکہ ہم سب پاکستانیوں کا ایک دوسرے کے متعلق یہ جاری رویہ ہے چناچہ ٹیم کو یہ بات سمجھانے کے لئے کسی طویل سیشن یا لیکچر کی ضرورت نہیں ہوگی۔ دوسرا یہ کہ اگر یہ بات ان کے پلے پڑ گئی، تو پھر کوئی مخالف، خواہ کتنا بھی تن آور ہو اپنی جڑوں پر قائم بھی نہیں رہ پائے گا۔ آزمائش شرط ہے۔۔۔۔!
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments