زندگی میں بہت کم ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن کو دیکھ کر ایک عجیب قسم کی ناقابلِ بیان راحت محسوس ہوتی ہے۔ جیسے طویل خشک سالی کے بعد بارش کی پہلی بوند، نومولود بچے پر ماں کی پہلی نظر، سٹاپیچ ٹائم میں میسی کا غیر یقینی گول۔ اور شعیب اختر کا چالیس گز کی دوری سے بیٹسمین کی جانب چیتے کی مانند دوڑتے ہوئے گولی کی ’رفتار‘ سے گیند کرنا۔
پاکستان نے ہر دور میں دنیائے کرکٹ کو بہترین فاسٹ بولرز دیے ہیں۔ ویسے تو پاکستان کے تیز ترین بولرز نے 70 اور 80 کی دہائی میں زیادہ نام کمایا لیکن ان کے آنے سے پہلے فضل محمود، خان محمد اور محمود حسین نے اس رجحان کا آغاز کیا تھا۔ لیکن اس کے بعد آنے والے بولرز نے دنیائے کرکٹ کو ہلا کر رکھ دیا۔ سرفراز نواز، جلاالدین اور پھر مہشورِ زمانہ عمران خان۔ جنھوں نے تیز اور خطرناک پاکستانی فاسٹ بولنگ کی بنیاد رکھی۔ 70 کی دہائی میں ریورس سوئنگ شروع کرنے والے سرفراز نواز کے اس رجحان کو آگے بڑھایا تو عمران خان نے، لیکن اسے بھرپور شکل وسیم اکرم اور وقار یونس نے دی۔
1992 میں انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ کے دوران جب انگلش کھلاڑیوں نے پہلی بار ریورس سوئنگ کا سامنا کیا تو انگلش بیٹنگ لائن اپ کے اوسان خطا ہوتے ہوئے نظر آئے۔ مبصرین سے لے کر انگلش میڈیا تک، سب نے وسیم اور وقار پر بال ٹیمپیرنگ کا الزام عائد کیا۔ یہ خبریں اور الزامات کچھ عرصے تک میڈیا اور کرکٹ تجزیہ کاروں میں گردش کرتے رہے، تاہم کچھ سال بعد جب دنیا نے ریورس سوئنگ کو پوری طرح تسلیم کیا تو انھیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا پڑا کے پاکستانی بولرز نے نہ صرف یہ فن دریافت کیا بلکہ وہ اپنے وقت سے کہیں آگے تھے۔
فاسٹ فارورڈ کا بٹن دبائیں اور ذرا آگے چلے جائیں، یہاں پاکستانی بولنگ لائن اپ میں خطرناک حد تک تیز گیند کرنے والے شعیب اختر اور محمد سمیع جیسے کھلاڑیوں کا اضافہ ہوا۔ اور وسیم اکرم اور وقار یونس کے ساتھ یہ اٹیک کرکٹ کے خطرناک ترین بولنگ اٹیکس میں شامل ہوا ہے۔ عمران، وسیم اور وقار کی ریٹائرمنٹ، محمد سمیع کی ٹیم میں مستقل جگہ بنانے میں ناکامی اور شعیب اختر کے فٹنس مسائل نے پاکستان کے صرف فاسٹ بولرز پر انحصار کے رجحان کو ختم کردیا اور سپنرز میچ وننگ بولرز بننے لگے۔ یہ دور تھا ثقلین مشتاق اور مشتاق احمد کا۔ جب وہ گئے تو ان کی جگہ سعید اجمل اور محمد حفیظ نے لی، لیکن بد قسمتی سے ان دونوں کو ان کے بولنگ ایکشن لے ڈوبے۔
اسے اتفاق کہیں یا خوش قسمتی، بیٹسمین مصباح الحق کے علاوہ پاکستان کے بہترین فاسٹ بولرز فضل محمود اور عمران خان ہی پاکستان کے بہترین کپتان بھی رہے ہیں۔ اور تاریخی لحاظ سے بھی پاکستانی ٹیم فاسٹ بولرز کے زیرِ کپتانی زیادہ اچھا کھیلی۔ پاکستان کو صرف فاسٹ بولرز کی کمی محسوس نہیں ہوتی، کمی محسوس ہوتی ہے تو ان دنوں کی جب 1981 میں عالمی کپ کے میچ میں پاکستان کے اس وقت کی بہترین ٹیم ویسٹ انڈیز کے سامنے صرف 140 رن بنا سکے۔ تاہم سرفراز نواز، وسیم راجہ اور عمران خان اسی ٹیم کو 132 پہ ڈھیر کر دیں۔
پاکستان کو کمی محسوس ہوتی ہے تو اس وقت کی جب 1992 کے فائنل میں 34ویں اوور کے اختتام پر نیل فیربرادر اور ایلن لیمب وکٹ پر سیٹ تھے اور انگلینڈ ٹیم ورلڈ کپ فائنل جیتنے جا رہی تھی اور اس وقت، عمران خان نے نوجوان وسیم اکرم کو اٹیک میں واپس بلایا اور سوئنگ کے بادشاہ نے دو گیندوں میں بازی پلٹ دی اور گراؤنڈ میں موجود 87000 شائقین کو ایک ایسا سپیل دکھایا جس نے ان کے ذہنوں پر زندگی بھر کے لیے ایک مستقل نقش چھوڑ دیا۔
اب نہ وقار یونس کی بیٹسمینوں کو زمیں بوس کرنے والی یارکرز ہیں اور نہ ہی شعیب کے پسلیاں توڑنے والے باؤنسر، اب کچھ باقی ہے تو وہ ہے محمد عامر
پاکستان اس طرح کے فاسٹ بولرز کیوں نہیں پیدا کر پا رہا اور گراؤنڈ لیول پر کس قسم کی تربیت دینی چاہیے یا پی سی بی کے مینیجمینٹ کے مسائل کیا ہیں۔ ان ساری باتوں پر تو کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ نہ ہمارے پاس اب اس طرح کے خطرناک بولرز ہیں جو بیٹسمینوں کے دلوں میں خود پیدا کریں اور نہ ہی ایسے بیٹسمین جو کسی بھی طرح کی پچ پر ذمہ داری سے رنز بنا سکیں۔
اب نہ تو وسیم اکرم کی ان سوئنگ ہے، نہ وقار یونس کے بیٹنگ لائن اپ کو تباہ کرنے والے یارکرز اور نہ ہی شعیب کے پسلیاں توڑنے والے باؤنسر، اب کچھ باقی ہے تو وہ ہے محمد عامر۔ لیکن اکیلے پوری بولنگ کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے ایک دن شاید عامر بھی تھک جائے۔ اور کہیں آئندہ کسی بڑے میچ میں ہارنے کے بعد ہم عامر کے بارے میں یہی سوچ رہے ہوں کہ ’ہے تو یہ جیتا ہوا سپاہی، لیکن ہے ہارے ہوئے لشکر سے۔‘
غضنفر حیدر
بی بی سی اردو، لندن
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments