ٹی وی پر طیارے کے حادثے کی بریکنگ نیوز دیکھی تو دل بجھ سا گیا، پھر جب پتا چلا کہ اس میں جنید جمشید بھی سوار تھے تو پھر دُکھ، تکلیف اور رنج کا یہ عالم ہوا کہ جیسے کوئی قریبی شخص بچھڑ گیا ہو، حالانکہ اب تو ان سے ملاقاتیں بھی بہت کم ہوتی تھیں، البتہ کبھی کبھار میں فون کرلیا کرتا تھا تو ان کا مخصوص خوشگوار انداز میں بات کرنا دل خوش کر دیتا تھا۔ 1995ء سے 1999ء تک میں نے کرکٹ میگزین ’’اخبار وطن‘‘ میں بطور ایڈیٹر کام کیا۔ اُس دور میں شاہد آفریدی اور ثقلین مشتاق سمیت کئی لوگوں سے دوستیاں ہوئیں جو اب تک برقرار ہیں۔ جنید بھائی سے پہلی ملاقات بھی تب ہی ہوئی، اخبار وطن کے مرحوم منیر حسین صاحب نے ہی مجھے اسپورٹس صحافت میں متعارف کرایا تھا۔ اسی ادارے سے ایک فلمی میگزین ’’فلم ایشیا‘‘ بھی شائع ہوتا تھا۔ کرکٹ کے بعد فلم اور میوزک میرے دیگر شوق ہیں، منیر صاحب نے اِسی شوق کو دیکھتے ہوئے مجھ سے فلم ایشیاء کیلئے بھی انٹرویوز کرنے کا کہا۔ اُس دورمیں جنید جمشید، سلمان احمد، علی حیدر اور سجاد علی عروج پر تھے، ان سے کئی ملاقاتیں ہونے لگیں مگر جنید جمشید کی بات الگ تھی۔
جب کبھی ان کے گھر جانا ہوتا تو عموماً وہ لنچ پر مدعو کرتے جہاں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کوئی بڑی شخصیت ہیں، کرکٹ کا انہیں بھی بہت شوق تھا، وہ کھیل کی باریکیوں کو سمجھتے تھے، پھر زندگی میں پہلی بار جب منیر صاحب کے ساتھ شارجہ گیا تو وہاں ایک دن دورانِ میچ پتا چلا کہ جنید جمشید بھی آئے ہوئے ہیں، تلاش کیا تو مسجد میں ملے، اُس وقت تک ان کی داڑھی تھی نہ انہوں نے تبلیغ کا کام شروع کیا تھا مگرنماز کی پابندی کرتے تھے۔ وہ موسیقی چھوڑنے سے پہلے بھی اچھے انسان تھے اور بعد میں بھی ویسے ہی رہے، انہوں نے خود کو دین کی تبلیغ کیلئے وقف کرلیا تو ان کی مصروفیات کی وجہ سے ملاقاتیں کم ہو گئیں، مگر فون اور ای میل پر کبھی کبھار رابطہ رہتا تھا۔ جب میں ان کو فون کر کے کہتا
’’جنید بھائی اب تو آپ ملتے ہی نہیں، بھول نہ جائیے گا تو وہ اپنے مخصوص انداز میں کہتے، سلیم تم میرے دل میں رہتے ہو کیسے بھول سکتا ہوں‘‘۔
ان سے جڑا ایک واقعہ مجھے اب تک یاد ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ شہرت کی بلندیوں پر تھے، میں نے اپنے بڑے بھائی کی شادی میں انہیں مدعو کیا، وہ کسی وجہ سے نہیں آسکے، پھر کچھ عرصے ہماری بات نہ ہوئی۔ ایک دن اچانک وہ اخبار وطن کے دفتر آ گئے اور کہنے لگے ’’ارے تم کہاں غائب ہو کوئی خبر نہیں، ناراض تو نہیں ہوگئے؟ پھر انہوں نے جیب سے اپنے کنسرٹ کے کئی ٹکٹ نکال کر دیے اور کہا ضرور آنا، پھر واپس چلے گئے۔
وہ کرکٹ کے بہت شوقین تھے، سعید انور اور شاہد آفریدی سمیت کئی کرکٹرز سے ان کی گہری دوستی رہی۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ ان کے اب اس دنیا میں نہ ہونے سے خصوصاً شاہد آفریدی پر کیا گزری ہوگی۔ گزشتہ دنوں جنون گروپ کے سلمان احمد ’’ایکسپریس نیوز‘‘ کے کسی پروگرام کیلئے دفتر آئے تھے، مجھے پتا چلا تو ان سے ملنے گیا وہ روایتی گرمجوشی سے ملے، اُس وقت میرے ذہن میں خیال آیا کہ کسی دن ایسا پروگرام بناتے ہیں جس میں جنید بھائی اور سلمان بھائی دونوں سے کرکٹ پر خوب باتیں ہوں، مگر افسوس اس کا موقع نہ مل سکا۔
جنید جمشید سے زیادہ قربت کا دعویٰ نہیں کرتا مگر ان کی شخصیت ہی ایسی تھی کہ جس سے ملتے وہ سمجھتا کہ ان کے بہت قریب ہے۔ ایسی کوالٹی مرحوم ڈاکٹر محمد علی شاہ میں بھی تھی، شاید یہی وجہ ہے کہ آج دونوں شخصیات کی دنیا سے رخصتی کے باوجود بھی لوگ اُنہیں اچھے الفاظ یاد کرتے ہیں۔ جنید جمشید کی موت پر بھی لوگ ایسے افسوس کر رہے ہیں جیسے ان کا کوئی اپنا دنیا سے گیا ہو، ایسی عزت ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔
سلیم خالق
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments