Sports

6/recent/ticker-posts
Visit Dar-us-Salam.com Islamic Bookstore Dar-us-Salam sells very Authentic high quality Islamic books, CDs, DVDs, digital Qurans, software, children books & toys, gifts, Islamic clothing and many other products.Visit their website at: https://dusp.org/

فرانسیسی فٹ بال ٹیم کے سات مسلمان کھلاڑی جنہوں نے جیت میں اہم کردار ادا کیا

بیس سال بعد فرانس نے یہ کامیابی کروشیا کو 4-2 سے ہرا کر حاصل کی۔ خاص بات یہ کہ اس موقع پر جہاں فرانسیسی مداح اپنے ملک کی کامیابی کا جشن زور شو ر سے مناتے رہے، وہیں سوشل میڈیا پر اس جیت کے متعلق کچھ الگ رائے سامنے آئی۔ اس دوران فرانس میں جاری اسلامو فوبیا اور دوہرا معیار موضوع بحث رہے کیونکہ فرانس کی ٹیم میں سات مسلمان کھلاڑی شامل تھے جنہوں نے آخری مقابلے کے دوران بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا۔ سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا : ’’ یورپ کے کئی ممالک میں مسلمانوں کی ستائش اسی وقت کی جاتی ہے جب وہ ہمیں تفریح بہم پہنچاتے یا قومی مفادات کیلئے کام کرتے ہیں۔ مگر جب کوئی ایک مسلمان جرم کرتا ہے تو تمام ایک ارب اسی کروڑ اسلام کے ماننے والوں پر اس کا الزام عائد کر دیا جاتا ہے ۔ انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ‘‘

حالیہ ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کے دوران فرانس کے مشہور مسلمان فٹبال کھلاڑی، پاؤل پوگبا نے ایک گول کرنے پر سجدہ شکر ادا کیا تھا۔ اس تصویر کو یورپی میڈیا نے نمایاں طور پہ شائع کیا۔ یاد رہے، پوگبا کو 2014ء کے ورلڈکپ کے دوران سب سے کم عمر کھلاڑی کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ پھر دوسرے مسلم فٹبال کھلاڑی، دیبریل سیڈیبی کے ہمراہ سجدہ شکر ادا کرتے ہوئے دونوں کی تصویر سوشل میڈیا پر تیزی کے ساتھ وائرل ہوئی۔ فرانس کی ٹیم میں موجود دیگر مسلمان فٹبال کھلاڑیوں میں عادل رامی‘ بنجامن مینڈی‘ این گولو کانٹے‘ نابیل فیکر‘ اور عثمان ڈامبلے شامل ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کے سب سے بڑے رفیوجی بحران ‘ آئی ایس ائی ایس اور داعش کی موجودگی کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں پر مغربی سیاست دانوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپ میں دائیں بازو کے لیڈر اپنے اسلامو فوبیا کو کئی طرح سے درست قراردینے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر فرانس کی انتہا پسند خاتون لیڈر مارائن لی پین جو 2017ء میں فرانسیسی صدارتی الیکشن میں دوسرے نمبر پر رہی۔ اس پر 2015ء میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر کی وجہ سے مقدمہ چلایا گیا تھا۔ لی پین نے 2010ء میں مسلمانو ں کا تقابل نازی قابضین سے کیا تھا۔ تاہم عدالت نے اسے تمام الزامات سے بری کر دیا۔مارائن لی پین فرانس میں حجاب اور نقاب کی شدید مخالفت کرنے والوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اسی طرح حلال گوشت پر امتناع اور کام کی جگہ پر نماز گاہ کو بھی اس نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ فرانس کے دورے پر لبنان کے مفتی اعظم سے ملاقات کے دوران 2017ء میں ہیڈ اسکارف کے استعمال کرنے سے انکار کے بعد وہ سرخیوں میں آئی۔ سال 2011ء اور 2015ء میں لی پین ملک کی سو طاقتور لوگوں میں شمار کی جانے لگی تھی۔ 

فرانس کے قوم پرست سیاستدانوں کے برخلاف ملک کے موجودہ صدر، امانیول مارکون نے کبھی مسلم لباس بشمول حجاب اوربرقعہ کی مخالفت نہیں کی۔ صدر بننے سے قبل مارکون نے کہا کہ فرانس نے غیرمنصفانہ طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنا کر بڑی غلطی کی ہے‘ اور مشورہ بھی دیا کہ ملک میں سکیولرزم کو کارگر بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے 2016ء میں اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا ’’ آج کے فرانس میں کوئی بھی مذہب ہمارے لیے مسلئے کی حیثیت نہیں رکھتا۔ اگر ملک کی حکومت مذہبی طور پہ غیرجانبدار ہو جائے ‘ تو ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہر کسی کو اس کے مذہب پر ایمانداری کے ساتھ عمل کرنے کا موقع فراہم کریں‘‘۔

اس کے باوجود حالیہ برسوں میں اسلاموفوبیا یا اسلام سے خوف فرانس میں کئی مسلمانوں پر ایک ہتھیار کی طرح متعدد مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ 2016ء میں فرنچ ریویرا مئیرس نے کئی شہروں بشمول کناس‘ فریجوس‘ ویلاینویو لوبیٹ اور روکوبرینا کیپ مارٹن میں برقع پر پابندی عائد کر دی تھی۔ بعدازاں ملک کی بڑی عدالت نے یہ کہتے ہوئے کہ ’’یہ حکم بنیادی حقوق کی خلاف ورزی‘‘ ہے، امتناع کو برخواست کر دیا تھا۔ ساؤتھ فرانس کے ساحلی شہر، مارسیلی کی ایک خانگی رہائش میں2017ء کے دوران ایک مسلم عورت نے برقع پہن کر تیراکی کی۔ اس کے بعد پول کی صفائی کے لیے پیسہ ادا کرنے کو اس سے کہا گیا۔ اسی سال ایک عرب عورت کو فرانس کی شہریت دینے سے محض اس لیے انکار کر دیا گیا کیونکہ اس نے ایک تقریب کے دوران سینئر عہدیدار سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا تھا۔

ضیا بٹ
 

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments